9 اگست، 2025، 12:39 PM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

ماہر قفقاز داریوش صفر نژاد کا کہنا ہے کہ "زنگزور راہداری" کے پیچھے نیٹو کی براہ راست حمایت موجود ہے اور امریکہ کے بعد یورپ، اسرائیل، ترکی اور تکفیری عناصر اس منصوبے میں شامل ہیں۔

منگل، 5 اگست کو مہر نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر میں ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد ہوا، جس کا عنوان تھا: "زنگزور کوریڈور: ایران کے خلاف جغرافیائی خطرات اور مختلف فریقوں کا نقطۂ نظر"۔

اجلاس میں ادارۂ مطالعہ موجودہ دنیا کے سربراہ شعیب بہمن، قفقاز امور کے سینئر ماہر داریوش صفر نژاد، قفقاز اُمور کے ماہر احسان محدیان، مہر میڈیا گروپ کے سربراہ محمد مهدی رحمتی اور مہر نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی شعبے کے ڈائریکٹر جنرل محمد رضا مرادی نے شرکت کی۔

زنگزور کوریڈور: خطے کے لیے نیا چیلنج

اجلاس کے آغاز میں محمد رضا مرادی نے زنگزور کوریڈور سے جڑے حالات کا خلاصہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازع شروع ہوا، آذربائیجان کے صوبے ناخچیوان سے رابطہ دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پہاڑی قرہ باغ، جو آذربائیجان کی حدود میں واقع ایک آرمینیائی آبادی والا علاقہ تھا، لاچین گزرگاہ کے ذریعے آرمینیا سے جڑا ہوا تھا اور یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔ یہی علاقہ دونوں ممالک کی جنگوں کی اصل وجہ بنا کیونکہ آذربائیجان اس پر قبضہ چاہتا تھا۔

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

چند جنگوں کے بعد آذربائیجان نے قرہ باغ پر کنٹرول حاصل کر لیا اور ایک تین فریقی معاہدے کے تحت وعدہ کیا کہ اس علاقے کے لوگوں کو آرمینیا تک محفوظ راستہ فراہم کرے گا۔ مگر محاصرے اور دباؤ کے باعث وہاں کے آرمینیائی باشندے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور خطہ خالی ہو گیا۔ اس طرح 2020 کے معاہدے کی ایک اہم شق آذربائیجان نے توڑ دی۔

آذربائیجان اب دعویٰ کرتا ہے کہ اسی معاہدے کی ایک اور شق کے تحت آرمینیا پر لازم ہے کہ وہ آذربائیجان کو ناخچیوان سے جوڑنے کے لیے ایک راہداری بنائے۔ 2020 سے اس مقصد کے لیے اس کی کوششیں جاری ہیں اور پچھلے ایک ماہ میں یہ مہم زیادہ تیز ہو گئی ہے۔

محمد رضا مرادی نے واضح کیا کہ زنگزور کوریڈور ایران، آرمینیا اور اس خطے میں موجود دیگر ممالک کے لیے ایک سنگین سیکیورٹی خطرہ ہے۔ ایران کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کا آرمینیا سے زمینی رابطہ ختم ہو جائے گا اور یورپی ممالک تک اس کی زمینی رسائی بھی متاثر ہو گی۔

خطے کے اہم مسائل پر میڈیا کے ذریعے مکالمہ ناگزیر ہے

زنگزور کوریڈور سے متعلق اجلاس کے افتتاحی خطاب میں ڈاکٹر محمد مہدی رحمتی نے کہا کہ خطے کے اہم مسائل پر میڈیا کے ذریعے مکالمہ ناگزیر ہے۔ اگر ہم سب علاقائی مسائل اور مشترکہ موضوعات پر میڈیا میں مناسب انداز میں بات کریں تو اس کے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے اپنے شعبوں میں علم، تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں اور ان کا تبادلہ خاص طور پر اس وقت اہم ہوتا ہے جب معاملہ راہداریوں کا ہو۔ جیسے آج زنگزور راہداری ہمارے لیے ایک حساس مسئلہ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنی معلومات اور تجاویز شیئر کرنے، سوالات کے جواب دینے اور کسی متفقہ حل تک پہنچنے کے لیے کم وقت نکالتے ہیں۔

ڈاکٹر رحمتی نے زور دیا کہ کسی خطے کے ہمسایہ ممالک کا مستقبل ایک دوسرے کے بغیر نہیں بن سکتا۔ میڈیا اس عمل میں سمجھوتہ پیدا کرنے اور مشترکہ مستقبل کی تشکیل کا محرک بن سکتا ہے۔ ایک مثبت میڈیا ڈائیلاگ سیاسی مستقبل کو شکل دے سکتا ہے اور پالیسی سازی میں اثرانداز ہو سکتا ہے۔ ایران، جس کا خطے میں طویل تاریخی پس منظر ہے اور جس کے لیے زنگزور راہداری انتہائی اہم ہے، اس قابل ہے کہ تمام خیالات کو یکجا کر کے مناسب نتیجے تک پہنچے۔

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

زنگزور راہداری چونتیس سالہ امریکی منصوبہ اور جنوبی قفقاز میں نیا نظام

بین الاقوامی اجلاس "زنگزور راہداری: ایران کے خلاف جغرافیائی خطرات اور مختلف فریقوں کا نقطہ نظر" سے خطاب کرتے ہوئے قفقاز امور کے سینئر ماہر داریوش صفرنژاد نے کہا کہ زنگزر راہداری دراصل ایک چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ ہے، جسے امریکہ "گوبل منصوبہ" کے نام سے پیش کرتا رہا اور آج کا زنگزور اسی کا نیا نام اور جدید شکل ہے۔ ان کے مطابق ایران اور روس نے ابتدا ہی سے اس منصوبے کی سخت مزاحمت کی اسی لیے آج تک اسے نافذ نہیں کیا جا سکا۔

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

انہوں نے کہا کہ اس راہداری کے پیچھے نیٹو کی براہ راست حمایت موجود ہے اور امریکہ کے بعد یورپ، اسرائیل، ترکی اور تکفیری عناصر اس منصوبے میں شامل ہیں۔ ترکی اس میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ نیٹو کے جنوب مشرقی کمان کا ہیڈکوارٹر ترکی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی قفقاز، وسطی ایشیا، افغانستان اور بالکان میں سرگرم ہے اور نیٹو کی وکالت کر رہا ہے۔

زنگزور راہداری ایران کو جغرافیائی طور پر مفلوج کرنے کا منصوبہ 

زنگزور راہداری پر منعقدہ اجلاس میں شعیب بہمن نے کہا کہ ایران کے گرد بڑے بڑے منصوبے بن رہے ہیں، جن میں زنگزور راہداری بھی شامل ہے۔ برسوں سے مشرقی سمت میں ’لاجورد راہداری‘ کا ذکر ہو رہا ہے، جس کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کو ترکمانستان سے جوڑنے کی منصوبہ بندی ہے اور پھر بحیرہ قزوین کے راستے باکو تک رسائی دی جائے گی۔ افغانستان اور پاکستان سے ترکی اور یورپ تک پہنچنے کے لیے ایران سب سے مختصر اور سستا راستہ ہے، لیکن یہ ممالک جان بوجھ کر ایران کو نظرانداز کرتے ہوئے طویل اور مہنگے راستوں، اور ریل، سمندر و سڑک کے مشترکہ ذرائع استعمال کر رہے ہیں تاکہ ایران کو عالمی ترانزٹ نیٹ ورک سے نکال دیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ’آئیمک راہداری‘ نامی ایک اور منصوبہ جنوب میں زیرِ غور ہے، جو بھارت سے شروع ہو کر خلیج فارس کے جنوبی ساحلی ممالک سے گزرتا ہوا مقبوضہ فلسطین، بحیرہ روم اور پھر یورپ تک جائے گا۔ اس منصوبے میں خلیج فارس کی جغرافیائی اہمیت کم کر دی جائے گی۔ اسی طرح ’راہِ ترقی راہداری‘ مغربی سمت میں طے کی جا رہی ہے، جو خلیج فارس سے عراق اور پھر ترکی تک پہنچے گی۔ یہ منصوبہ تقریباً شمال–جنوب راہداری کے متوازی ہے، جس پر ایران اور روس سالوں سے کام کر رہے ہیں اور اس کا مقصد بھی ایران کو تجارتی گزرگاہوں سے باہر رکھنا ہے۔

شعیب بہمن نے کہا کہ شمال مغرب میں زنگزور راہداری بھی یہی کر رہی ہے۔ایران کو ترانزٹ نیٹ ورک سے باہر کرنا۔ یہ صرف تجارتی راستوں کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے سنگین جغرافیائی اور سکیورٹی اثرات بھی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں مجوزہ چاروں راہداریاں ایران کو ایک ’بند جغرافیہ‘ میں بدل دیں گی، جہاں سے کوئی اہم بین الاقوامی تجارتی یا ترانزٹ راستہ نہیں گزرے گا۔ یوں ایران کاغذ پر تو نقشے میں موجود ہوگا، لیکن دنیا کے بڑے تجارتی دھاروں میں اس کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

ادارۂ مطالعاتِ جہان معاصر کے سربراہ نے کہا کہ اگر کسی ملک کو بین الاقوامی معیشت سے کاٹ دیا جائے تو وہ کئی طرح کی کمزوریوں کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے ملک پر پابندیاں لگانا یا اس پر حملہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ زنگزور راہداری دراصل ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جو ایران کے گرد تشکیل پا رہا ہے، اور جب تک ہم اس بڑے نقشے کو نہ دیکھیں، زنگزور کے اصل خطرات کو سمجھ نہیں سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ "داوود راہداری" کا ذکر سب سے پہلے اس وقت نمایاں ہوا جب اسرائیل نے ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ چھیڑی۔ اس راہداری کا مقصد مزاحمتی محور کے مرکز کو نشانہ بنانا ہے۔ منصوبے کے مطابق یہ راستہ جنوبی شام کے شہر سویدا سے شروع ہو کر مشرقی فرات، شام کے کرد علاقوں اور پھر عراق کے کردستان خطے سے گزرتا ہوا ایرانی سرحد تک پہنچے گا۔ یہ راہداری آگے چل کر زنگی زُر راہداری سے جڑ جائے گی کیونکہ یہ ایران–ترکی سرحد تک پہنچتی ہے اور اس کا ایک شاخہ براہِ راست زنگی زُر سے ملتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج نے ایران پر حملے کے لیے اسی سوچے سمجھے راستے کا سہارا لیا۔ داوود راہداری کے ذریعے وہ مغربی اور مرکزی ایران تک پہنچے، پھر ایران–ترکی سرحد سے آگے زنگزور کے فضائی راستے پر منتقل ہوئے اور وہاں سے بحیرہ قزوین کے اوپر سے گزر کر تہران کو نشانہ بنایا۔ یہ تمام منصوبے ایران کو جغرافیائی طور پر گھیرنے اور اس کا سانس روکنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔

زنگزور راہداری معاشی فائدہ یا ایران کی سلامتی پر وار؟

بین الاقوامی اجلاس "زنگزور راہداری: ایران کے خلاف جغرافیائی خطرات اور مختلف فریقوں کا نقطہ نظر" میں شریک ماہر احسان موحدیان نے کہا کہ قفقاز کی اہمیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ امریکہ نے اپنی توجہ عرب ممالک سے ہٹا کر آذربائیجان پر مرکوز کر دی ہے۔ باکو اب ایسا مرکزی نقطہ بن چکا ہے جہاں سے امن معاہدے دنیا کے دیگر خطوں، خصوصاً وسطی ایشیا اور پھر مغربی ایشیا تک مسلط کیے جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس خطے سے ہماری لاپرواہی ہمیں بھاری نقصان دے رہی ہے، اس لیے حکام اور میڈیا کو اس پر پوری نظر رکھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آذربائیجان نے کوشش کی ہے کہ زنگزور راہداری کو ایک معاشی منصوبہ بنا کر پیش کرے، لیکن حقیقت میں یہ منصوبہ ایران کی سلامتی اور اس کی سرحدی خودمختاری کو نشانہ بناتا ہے۔ اگر صرف آمدورفت کی ضرورت ہے تو گزرگاہ گرجستان سے برسوں سے استعمال ہو رہی ہے۔ پھر ایران کی سرحد کے ساتھ ایک پتھریلے اور مشکل علاقے سے گزرنے پر اصرار کیوں؟ ان کے مطابق، آذربائیجان کی یہ روش کسی حقیقی علاقائی تعاون کا حصہ نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے کرائے کی کارگزاری جیسی لگتی ہے۔

"زنگزور کوریڈور" چونتیس سال پرانا امریکی منصوبہ

News ID 1934756

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha